67

ہم جنس پرستی اور مغربی دنیا کی نئی پہچان – ایک لمحۂ فکریہ

یہ “آواز ناروے” کی جانب سے ایک اہم اور بروقت پیغام ہے۔ ہم اسے اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو باخبر کریں کہ آج پورے یورپ میں “گے پرائیڈ ڈے” منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو “گے ڈے” بھی کہا جاتا ہے، جس میں ہم جنس پرست افراد، یعنی مرد مرد سے اور عورت عورت سے تعلقات یا شادی کو تسلیم کرنے والے، سڑکوں پر جلوس نکالتے ہیں، ریلیاں کرتے ہیں اور کھلے عام اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں قومِ لوط کا ذکر نہایت وضاحت سے موجود ہے۔ اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے اس قوم کو نہیں دیکھا، لیکن پچھلے دو عشروں میں ہم نے ان جیسے اعمال کو اپنے گرد پھیلتے، طاقت حاصل کرتے اور کھلے عام قبولیت پاتے ضرور دیکھا ہے۔ ان مظاہروں کو مغربی حکومتیں نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ ان کی بھرپور سرپرستی بھی کرتی ہیں۔ بڑے شہروں میں ان تقاریب کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں اور انھیں قومی ثقافت کا حصہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

یہ سلسلہ صرف اوسلو یا ناروے تک محدود نہیں، بلکہ پورے یورپ میں “پرائیڈ ویک” کے طور پر منایا جاتا ہے، جس میں سیاسی جماعتیں، کارپوریٹ ادارے، عدالتیں، میڈیا اور سول سوسائٹی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ ان کی حمایت کا مقصد محض انسانی حقوق کا دفاع نہیں، بلکہ ووٹ بینک کا تحفظ بھی ہوتا ہے کیونکہ ہم جنس پرست افراد کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

یورپ کے بعض ممالک میں ایسے افراد پارلیمنٹ، عدلیہ اور دیگر اعلیٰ اداروں میں بھی موجود ہیں۔ اگر ان کے خلاف کوئی آواز بلند ہو تو اُسے فوراً دبایا جاتا ہے، اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو تعصب اور نفرت انگیزی کا مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام کی روشنی میں یہ طرزِ عمل فطرت کے خلاف اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا سمجھا جاتا ہے۔

قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اب بچوں کو بھی کم عمری سے یہ سکھایا جا رہا ہے کہ “ہم جنس پرستی” ایک عام اور قابلِ فخر طرزِ زندگی ہے۔ مائیں خود اپنے بچوں کو ان تقریبات میں لے جا رہی ہیں، تاکہ وہ اس ماحول کو معمول سمجھنے لگیں۔ آج ہزاروں افراد، جنہوں نے کبھی اس طرزِ زندگی کو چھپ کر اپنایا تھا، اب فخر سے خود کو “پراؤڈ” کہلواتے ہیں۔ ان کے لیے علیحدہ کیفے، کلب اور کمیونٹیز قائم ہو چکی ہیں جہاں ان کی مکمل معاشرتی قبولیت موجود ہے۔

یہ افراد اب صرف عوام کا حصہ نہیں بلکہ پالیسی ساز اداروں، عدالتوں اور حکومتوں میں بھی مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان باہمی حمایت اور وسائل کی مضبوط زنجیر ہے۔ کینیڈا کی ایک مثال میں ایک پاکستانی نے صرف امیگریشن کے حصول کے لیے خود کو “ہم جنس پرست” ظاہر کیا۔ اس کا وکیل اور جج دونوں ہم جنس پرست تھے، اور نتیجتاً اسے مستقل اقامت مل گئی۔ یوں وہ بھی اس گروہ کا باقاعدہ رکن بن گیا۔

ہمیں غور کرنا ہوگا کہ مغرب میں “فخر” کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ دراصل اخلاقی حدود کو مسمار کرنے کی ایک عالمی مہم بن چکا ہے۔ آج اوسلو کی سڑکیں بند ہیں تاکہ لاکھوں افراد پر مشتمل یہ جلوس بغیر رکاوٹ کے گزر سکیں۔ یہ مناظر قومِ لوط کی یاد تازہ کرتے ہیں — ایک ایسی قوم جس پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا۔

ہم “آواز ناروے” کی جانب سے اپنے تمام مسلمان قارئین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ان عالمی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے لیں، اپنی نسلوں کی تربیت قرآن و سنت کی روشنی میں کریں، اور برائی کو برائی کہنے کا حوصلہ برقرار رکھیں۔

والسلام — آواز ناروے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں